Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

گھر بچائیے۔۔۔ صرف ایک لفظ سے

ماہنامہ عبقری - فروری 2013

معذرت کو کبھی سرسری انداز میں نہیں لیا جانا چاہیے‘ معذرت ایک سنجیدہ عمل کا نام ہے‘ معذرت کی زیادتی اس کی اہمیت کھودیتی ہے‘ آپ کو اس کا استعمال اسی صورت میں کرنا چاہیے جب واقعی اس کی ضرورت ہو‘ معذرت کو بامعنی ہونا چاہیے اسے حقیقی ہونا چاہیے نہ کہ مجبوری۔

بہت ہی معروف اور پرانا مقولہ ہے کہ ’’انسان غلطی کاپتلا ہے‘‘ یہ غلطی دانستہ بھی ہوسکتی ہے اور نادانستہ بھی‘ بلاشبہ اس مقولے پر یقین کرنے کیلئے ہمارے پاس روزمرہ کے سینکڑوں تجربات موجود ہیں اگر ہم اپنی ذات میں جھانک کر دیکھیں گے اور ہم میں خود پسندی کا مادہ بھی عام انسان سے زیادہ نہیں ہوگا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہم اپنے آپ کو بہت حد تک اسی مقولے کے مطابق پائیں گے۔ کئی لوگ ہم سے ناراض ہوجاتے ہیں اور بعض سے ہم خود ناراض ہوتے ہیں‘ کسی کو ہماری کوئی بات بری لگ جاتی ہے تو اسی طرح ہمیں کسی اور کی کوئی بات یا حرکت ناگوار گزرتی ہے‘ انتہائی پڑھے لکھے‘ سلجھے اور سمجھدار افراد سے بھی غلطی ہوسکتی ہے‘ یادانستگی میںاس کاکوئی اقدام دوسرے کیلئے ناپسندیدہ ہوسکتا ہے‘ یا کسی کیلئے تکلیف اور رنج کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن یہ ساری صورتحال ہرگز پریشان کن نہیں ہے‘ کیونکہ جس طرح ہمارے کسی عمل یا بات سے دوسروں کے ساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں بالکل اسی طرح ہماری ذرا سی کوشش سے ان تعلقات کو ایک بار پھر معمول پر لایا جاسکتا ہے اور عام طور پر اس کام کیلئے زیادہ مشقت بھی نہیں کرنا پڑتی بس ذرا سے حوصلے اور تدبر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
انسانی رویوں کے ایک اور ماہر پال نوٹر کا کہنا ہے کہ ’’غلطی کرنا یا غلطی کا سرزد ہونا اتنانا پسندیدہ عمل قرار نہیں دیا جاسکتا جتنا کہ غلطی پراڑ جانا یا اس کا اعتراف نہ کرنا ہے۔‘‘
نوٹر کہتا ہے کہ ’’اگر آپ نے کچھ غلط کیا ہے تو اسے قبول کرنا بھی آنا چاہیے‘ غلطی کا اعتراف کرنے سے دوسرے آدمی کی نظر میں ہرگز آپ کا مقام کم نہیں ہوتا بلکہ شاید آپ کی قدر و قیمت کچھ بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ مسئلے کو نظرانداز کردیں گے اور سوچیں گے کہ یہ معاملہ خود بخود رفع دفع ہوجائے گا تو آپ غلطی پر ہیں‘ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات آپ معاملے کو جتنے طویل عرصے تک نظرانداز کرتے جاتے ہیں وہ اتنا ہی پیچیدہ ہوتا جاتا ہے۔‘‘
اس بات کا احساس کرنا کہ آپ نے غلطی کی ہے اور یہ وعدہ کرنا کہ آپ آئندہ اسے نہیں دہرائیں گے‘ کسی بھی متاثر کن معذرت کیلئے ضروری ہے۔ ایک اور انسانی رویوں کے ماہر کہتے ہیں ’’اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ آپ کیسے معذرت کرتے ہیں مگر جب بھی معذرت کریں دل سے اس بات کا احساس کریں کہ آپ نے غلط کیا ہے‘ اس لیے کہ کسی بھی تعلق کو قائم رکھنے کیلئے معذرت بہت ضروری ہے۔ یہ اس بات کو واضح کرتی ہے کہ آپ اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر اچھے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور آپ کو اپنے ساتھی کے احساسات کا خیال ہے‘ معذرت اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ غلطی کا اعتراف کرنے میں آپ کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
انسانی تعلقات اور رویوں کے ایک اور ماہر Becky conroyکہتے ہیں کہ ’’یہ درست ہے کہ غلطی کرنا ایک فطری عمل ہے یہ ہر کوئی کرتا ہے مگر غلطی کی ذمہ داری قبول کرنے سے لوگ کتراتے ہیں آپ کو یہ ذمہ داری قبول کرنا آنا چاہیے تاکہ غلطی کی اصلاح ہوسکے۔‘‘
کچھ غلطیوں کو بڑی معذرتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور عام طور پر بڑی معذرتوں کی ضرورت بھی اسی وقت پیش آتی ہے جب غلطی بھی بڑی ہو آپ نے کسی شخص کے سیاسی‘ مذہبی یااخلاقی قدروں کونشانہ بنایا ہو یا اس طرح کے طنز کیے ہوں جو دوسرے کیلئے انتہائی تکلیف دہ ہوں‘ ایسی غلطیوں پر معذرت کیلئے یقینا آپ کو زیادہ وقت اور زیادہ توانائی صرف کرنا ہوگی۔ آپ اپنی غلطی پر معذرت کیلئے پھول ساتھ لے کر جاسکتے ہیں ایک خوبصورت کارڈ یا پھر کوئی منفرد قسم کا تحفہ مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنی زبان سے الفاظ بھی ادا کرنے ہوں گے‘ صرف تحفے یا پھولوں سے کام نہیں چلے گا۔ تحائف وہ بات نہیں کہہ سکتے جو ایک دلی معذرت کہہ سکتی ہے۔
معذرت کرتے ہوئے مخاطب سے آنکھ ملا کر بات کریں‘ ایک مخلصانہ انداز اور گرم جوش الفاظ کا استعمال کریں تاکہ آپ کا رشتہ پھر سے استوار ہوسکے۔ یقینا غلطی کا احساس آپ کو دل میں محسوس ہونا چاہیے۔ آپ کو معذرت کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرنا ہوتی ہے کہ آپ یہ معذرت کیوں کررہے ہیں؟ اگر آپ یہ نہیں جانتے کہ دوسرا آپ سے معذرت کیوں کررہا ہے تو اسے معاف کرنا آپ کیلئے اتنا آسان نہیں ہوگا۔
اکثر والدین اپنے بچوں کو معذرت پر مجبور کرتے ہیں۔ معذرت پر مجبور کرنا اکثر بے اثر ثابت ہوتا ہے۔ بچوں کو عام طور پر اس وقت معذرت کیلئے کہا جاتا ہے جب انہیں کوئی سزا دی جارہی ہو۔ اس طرح کی معذرتیں بے معنی ہوتی ہیں یہ اس احساس کو ختم کردیتی ہیں جو کہ ایک بچے کو اپنی غلطی کے بعد خودہوتاہے‘ دراصل وہ اپنی غلطی کا اعتراف کررہا ہے‘ اسے معذرت کرنے والے کے مسائل بھی ذہن میں رکھنے چاہئیں بہت ممکن ہے کہ اس سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے وہ نادانستگی میں ہوئی ہو۔
غلطی معافی کی درخواست ہوتی ہے‘ معذرت کرنے کے بعد دوسرا شخص آپ سے توقع رکھتا ہے کہ آپ اسے معاف کردیں گے۔ وہ آپ کو یہ بتانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے کہ آپ اس کیلئے اہم ہیں۔ معذرت دراصل توبہ کی ایک شکل ہے جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ایسا عمل نہیں دہرائے گا جو آپ کیلئے آئندہ تکلیف کا باعث ہو۔
آپ کے گھر میں معذرت کا استعمال
معذرت کو کبھی سرسری انداز میں نہیں لیا جانا چاہیے‘ معذرت ایک سنجیدہ عمل کا نام ہے‘ معذرت کی زیادتی اس کی اہمیت کھودیتی ہے‘ آپ کو اس کا استعمال اسی صورت میں کرنا چاہیے جب واقعی اس کی ضرورت ہو‘ معذرت کو بامعنی ہونا چاہیے اسے حقیقی ہونا چاہیے نہ کہ مجبوری۔
صرف اس وقت معذرت کریں جب آپ کو واقعی لگے کہ میں نےغلط کیا ہے۔ بیوی کو بتائے بغیر ایک شخص نے رات باہر گزار دی‘ اسے اس پر معذرت کرنا چاہیے‘ لیکن اگر دفتر پہنچ کر آپ کو گھر فوری اطلاع کرنے کا وقت نہیں ملا تو اس پر گڑگڑانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دوسرے شخص کو بھی آپ کے مسائل کا اندازہ ہونا چاہیے۔
معذرت کو کبھی ڈیلیٹ بٹن کے طور پر استعمال نہ کریں کہ جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ معذرت کے ساتھ ختم ہوگیا بلکہ اس کے اثرات دیر تک رہتے ہیں اور اگر آپ نے غلطی دہرانے میں جلدی کردی تو معذرت کے سارے سابقہ انداز خاک میں مل جائیں گے۔
والدین کا بچوں سے معذرت کرنا‘ بچوں پر اچھے اثرات مرتب کرتاہے‘ ان میں انسان دوستی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے وہ بھی غلطی پر نادم ہونا اور اپنی اصلاح کرنا سیکھتے ہیں۔ یہ ماں باپ کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 467 reviews.